How to Use

      <link media="all" type="text/css" rel="stylesheet" href="http://cdn.aala.pk/fonts/aalaNastaleeq.css">
      <style>

      body {
          font-family: AalaNastaleeq;
          direction: rtl;
      }
      </style>
    

غالب کی غزل

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے
بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچّھا ہے
بے طلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے وہ گدا جس کو نہ ہو خوۓ سوال اچّھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے
ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے
خضر سلطاں کو رکھے خالقِ اکبر سر سبز شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچّھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچّھا ہے

The Poem In English

There is a place where the sidewalk ends And before the street begins,
And there the grass grows soft and white, And there the sun burns crimson bright,
And there the moon-bird rests from his flight To cool in the peppermint wind.
Let us leave this place where the smoke blows black And the dark street winds and bends.
Past the pits where the asphalt flowers grow We shall walk with a walk that is measured and slow,
And watch where the chalk-white arrows go To the place where the sidewalk ends.
Yes we'll walk with a walk that is measured and slow, And we'll go where the chalk-white arrows go,
For the children, they mark, and the children, they know The place where the sidewalk ends.

Please write here, for testing تجربہ کرنے کے لیئے آپ کو اردو کی بورڈ انسٹال کرنا ہو گا۔